شجاعت یہ ہے کہ انسان سختیوں اور خطرات سے ٹکرانے میں دلیر اور ثابت قدم ہو،خطیب پاکستان علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی
جب مقابلہ اور جنگ کی نوبت آجائے تو انسان قربانی اور جانثاری سے نہ گھبرائے،خطیب پاکستان علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی
کراچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔نشتر پارک میں مرکزی عشرہ محرم کی تیسری مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے خطیب پاکستان علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی کا کہنا تھا کہ شجاعت یہ ہے کہ انسان سختیوں اور خطرات سے ٹکرانے میں دلیر اور ثابت قدم ہو اس لفظ کا استعمال زیادہ تر مبارزے لڑائی اور جہاد کے مسائل میں ہوتا ہے دشمن سے ٹکرانے اور پیچھے نہ ہٹنے میں شجاعت سمجھی جاتی ہے
یہ دل کی طاقت،ارادے کی مضبوطی اور روحانی قوت ہے جو انسان کو حق بات کہنے سے نہیں روکنے دیتی یہاں تک کہ اگر ظالم و جابر کے سامنے بھی ہو اسی طرح جب مقابلہ اور جنگ کی نوبت آجائے تو انسان قربانی اور جانثاری سے نہ گھبرائے اکثر لوگ ڈر جاتے ہیں مگر شجاعت یہ ہے کہ انسان خواہ رنج و غم کا سامنا کرے مگر میدان میں موجود ہو خوفزدہ نہ ہو خود کو نہ کھو بیٹھے اور مشکلات کے باوجود حق اور درست بات کو اختیار کرے تمام بہادریاں میدانِ جہاد کے کارنامے اور دلیرانہ فتوحات سب کا سرچشمہ یہی شجاعت ہے
اسی نے دشمنوں کے رعب،طاغوتی طاقتوں اور جابروں کو شکست دی ہے اور اسی نے ثابت قدم اور شجاع انسانوں کو دشمن سے مقابلہ کرنے کی ہمت دی ہے موت سے نہ ڈرنا،شجاعت کے نمایاں مظاہر میں سے ایک ہے اور یہی وصف امام حسینؑ کا اہم محرک تھا جس نے انہیں عاشورا کی عظیم جنگ و حماسہ تک پہنچایا اور ایک لازوال تاریخ رقم کی
جب امامؑ مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں ایسے لوگوں سے سامنا ہوا جو عراق کی خراب صورتحال اور ابن زیاد کے ظلم و ستم کی خبریں دیتے ہوئے انہیں اس سفر سے ڈراتے تھے اور اس کے نتائج سے خوفزدہ کرتے تھے امام حسینؑ کا جواب یہ تھا میری شان اُن لوگوں جیسی نہیں جو موت سے ڈرتے ہیں۔