اگر نئی نسل نے محض مشہور شاعروں کی نقل پر اکتفا کیا، تو ادب کا اصل حسن اور گہرائی کھو جائے گی: عمار اقبال
تخلیق وہ آگ ہے جو صرف اندر سے جلتی ہے، ادھار کے لفظوں سے نہیں بھڑکتی
ادب جذباتی کھیل نہیں بلکہ ایک طویل اور مشکل تربیت کا سفر ہے
کراچی…….. جون ایلیا کے نقالیوں نے اردو ادب کو کمزور کیا یہ جملے سن کر ہی سمجھ آ جاتا ہے کہ عمار اقبال نرم لہجے والے شاعر نہیں، بلکہ وہ آواز ہیں جو سیدھا دل اور دماغ ہلا دیتی ہے۔ کراچی کے ادبی افق پر ابھرتا ہوا یہ نام اپنی جراتِ اظہار، کڑوی مگر سچی بات اور منفرد انداز سے پہچانا جاتا ہے۔ کم وقت میں وہ وہاں پہنچے ہیں جہاں لوگ برسوں میں بھی نہیں پہنچ پاتے کیونکہ وہ محض لکھتے نہیں، کاٹ دار الفاظ سے سوچوں کی بنیاد ہلا دیتے ہیں۔ پندرہ کتابیں شائع کر چکے ہیں، جن میں “زخم کی خوشبو”، “لفظوں کا شہر” اور “چراغ اور سایہ” موجود ہیں ان کے مصرعوں میں محبت کا لمس بھی ہے اور تلخ حقیقت کا زہر بھی، جو ایک بار پڑھنے کے بعد دیر تک ذہن میں گونجتا رہتا ہے۔
عمار اقبال کھل کر کہتے ہیں کہ آج کے نوجوان شاعر بننے کی دوڑ میں ہیں مگر مطالعہ، مشاہدہ اور فن کا احترام بھول چکے ہیں۔ “آج کل لوگ صرف الف لکھنا سیکھتے ہیں اور شاعر بن جاتے ہیں۔ چند لوگ جون ایلیا کا لہجہ چرا کر سمجھتے ہیں کہ وہ بھی شاعر ہیں۔ یہ تخلیق نہیں، چوری ہے اور یہ ادب کے لیے زہرِ قاتل ہے۔” ان کے نزدیک ادب جذباتی کھیل نہیں بلکہ ایک طویل اور مشکل تربیت کا سفر ہے، جس میں شعور، صبر اور مسلسل ریاضت ضروری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لیکچرز، مشاعروں اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو جھنجھوڑتے ہیں کہ نقالی سے نکل کر اپنی خوشبو پیدا کرو۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ میر نے درد سے، غالب نے فلسفے سے، فیض نے انقلاب سے، اور احمد فراز نے محبت اور مزاحمت سے اپنا رنگ پیدا کیا تبھی وہ آج بھی زندہ ہیں۔ عمار اقبال کا ماننا ہے کہ شاعر کو زمانے کے دھڑکن کے ساتھ چلنا آنا چاہیے، مگر اپنی شناخت قربان کیے بغیر۔ وہ کہتے ہیں کہ “ادب کی موت اس دن ہوگی جب سب کا لہجہ ایک جیسا ہو جائے گا۔” ان کا یقین ہے کہ تخلیق وہ آگ ہے جو صرف اندر سے جلتی ہے، ادھار کے لفظوں سے نہیں بھڑکتی۔ نوجوانوں کے لیے ان کا پیغام ہے
“محنت کرو اور محنت پر یقین رکھو، نقل سے زیادہ دیر تک اصل رہتا ہے شہرت کے شارٹ کٹ چھوڑ کر صبر، محنت اور مطالعہ اپناو ان کا ماننا ہے کہ جو شاعر زمانے کو بدلنے کی جرات نہیں رکھتا، وہ صرف کاغذ پر لفظ جوڑ رہا ہے۔ عمار اقبال کا کہنا ہے کہ ادب صرف پڑھنے والوں کا نہیں، لکھنے والوں کا امتحان بھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے موقع ضرور دیا ہے مگر معیار گرنے کا خطرہ بھی بڑھا دیا ہے، اسی لیے ہر لفظ سوچ سمجھ کر لکھنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، وہی شاعر زندہ رہتا ہے جو زمانے کو آئینہ دکھانے کے ساتھ امید کی روشنی بھی دیتا ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں: “شاعری شہرت کے لیے نہیں، سچ کہنے کے لیے کرو۔ ایک شعر اگر کسی ایک دل کو بدل دے، تو سمجھو تم جیت گئے۔