سادگی کے لبادے میں چھپا نیا کردار
تحریر: عقیل اختر

یہ کہانی محض ایک شخص کی نہیں، بلکہ اُس سوچ کی ہے جو ہمارے معاشرے میں دن بدن پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ سوچ جو زبان سے دیانت کے قصیدے پڑھتی ہے مگر ہاتھ سے قومی خزانے کے نوٹ گنتی ہے۔ ایک صاحب ہیں، شہر کی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ۔ برسوں جدوجہد کی، جلسوں میں نعرے لگائے، کارکنوں کے دکھ سہے، اور آخرکار ایک عوامی عہدہ حاصل کر ہی لیا۔ لوگوں نے خوشی منائی کہ اب کوئی ایماندار آیا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ کہانی کا رخ وہی ہوا جو عموماً ہمارے ہاں ہوتا ہے — جہاں نعرے سچے اور نیتیں خفیہ ہوتی ہیں۔یہ صاحب ہر محفل میں عاجزی اور خدا ترسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سفید شلوار قمیص، ہاتھ میں تسبیح، اور گفتگو میں وہی معروف جملے:“بھائی، میں تو اللہ کے خوف سے کام کرتا ہوں۔”“میں نے آج تک کرپشن کا سوچا تک نہیں۔”بظاہر ایک پارسا شخصیت۔ لوگ سلام کرتے ہیں، احترام کرتے ہیں، اور وہ مسکرا کر کہتے ہیں:“بس عوام کی خدمت میرا مشن ہے۔”مگر خدمت کا مفہوم ان کے نزدیک شاید کچھ اور ہے۔ کیونکہ دفتر میں جب ٹھیکے کی فائل آتی ہے، تو اس“خدمت گار”کے دستخط کے بعد ٹھیکیدار کے چہرے پر بھی خدمت کا نور آجاتا ہے
۔افسران سے وہ ناراض رہتے ہیں —“یہ سب بدعنوان ہیں! عوام کا پیسہ کھا جاتے ہیں!”لیکن جب منصوبے کے بجٹ میں اضافی شقیں شامل ہوتیں، تو ان کے قلم کی سیاہی بھی کچھ زیادہ ہی خوشبودار ہو جاتی ہے۔ یوں وہ دستخط کرتے ہوئے گویا عبادت کا سا سکون محسوس کرتے ہیں۔ کسی فنڈ کی منظوری ہو یا کسی اسکیم کا افتتاح، ہر جگہ وہ تصویر میں مسکراتے ہیں، جیسے قوم کی قسمت کا بٹن انہی کے ہاتھ میں ہو۔ مگر عوامی فلاح کے نام پر جو فائلیں گردش کرتی ہیں، ان کے اندر کچھ اور ہی حساب کتاب لکھا ہوتا ہے۔یوں تو عہدہ عوامی تھا، مگر اس کے گرد دیواریں ذاتی مفاد سے بنی تھیں۔ پروجیکٹ کے نام پر چندے، عوامی بہبود کے نام پر فنڈز، اور ترقیاتی اسکیموں کے عنوان سے وہی پرانے کھیل۔ محکمے کے افسران پر تنقید ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ہر میٹنگ میں وہ تنقیدی لہجے میں کہتے:“میں سب جانتا ہوں، یہاں سب چور ہیں!”مگر جو چوری وہ خود کرتے، وہ اتنی خاموشی سے ہوتی کہ جیسے فرشتہ پر لگے پر کی آہٹ بھی نہ سنائی دے۔ان کے الفاظ میں شفافیت کا دریا بہتا تھا، مگر عمل کے پیچھے گدلا نالہ چھپا ہوتا۔ عوام کے سامنے وہ دیانت کی مورت، اور پسِ پردہ ٹھیکوں کے کمیشن کے وارث۔ یہی وہ نیا فارمولا ہے جسے“کرپشن کی جدید سیاست”کہا جا سکتا ہے۔ دستخط افسر کرتا ہے، مگر اصل نفع موصوف کے اکاؤنٹ میں بہتا ہے۔ کوئی رسید نہیں، کوئی ثبوت نہیں، صرف“تقدیر کا کرم”کہہ کر سب جائز۔افسران اگر اعتراض کریں تو وہی پرانا حربہ —“ہمیں شک ہے یہ افسر خود بیایمان ہے!”یوں شک کا دائرہ وسیع، اور خود احتساب کا دائرہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے
![]()
۔ یہی وہ تضاد ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے — جہاں ایمانداری کی بات سب کرتے ہیں مگر اسے اپنانے کی جرا?ت کوئی نہیں کرتا۔ایسے کرداروں کی سب سے بڑی طاقت ان کا مذہبی لبادہ ہے۔ ہر تقریر میں ایمان، نیکی، اور آخرت کی بات، لیکن جب موقع ملے تو فنڈ کی فائلوں میں خدمت خلق کے نام پر چند اضافی ہندسوں کا اضافہ بھی۔ یہ نیا طرزِ سیاست، مذہب کے تقدس کو بھی کاروبار بنا چکا ہے۔ یہ لوگ تسبیح کے دانوں سے زیادہ نوٹ گنتے ہیں، اور دعا کے الفاظ سے زیادہ فائل کے صفحات پلٹتے ہیں۔ ان کی دیانت صرف مائیک کے سامنے رہتی ہے، اور ان کی نیت صرف بینک اکاؤنٹ کے نیچے چھپی ہوتی ہے۔سب جانتے ہیں، مگر کوئی بولتا نہیں۔ کیونکہ عوام اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ“سب ایک جیسے ہیں۔”یہی جملہ ان بدعنوان کرداروں کے لیے ڈھال بن گیا ہے۔ جب سب چور ہیں تو پکڑا کون جائے؟ یہی وہ ذہنی غلامی ہے جو نظام کو زنگ آلود کر چکی ہے۔
جب دیانت کو حماقت سمجھا جائے، اور چالاکی کو کامیابی، تو پھر کرپشن کے خلاف جنگ محض ایک نعرہ بن جاتی ہے۔ہمارے یہ فرضی مگر حقیقی کردار تنقید کے ماہر ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے کا فن جانتے ہیں۔ ہر اجلاس میں وہ کسی نہ کسی افسر کو نشانہ بناتے ہیں، گویا یہی اصل خدمتِ خلق ہو۔ ان کی تنقید میں سچائی کم اور خود نمائی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ شور کرتے ہیں تاکہ ان کے اپنے اعمال کا شور دب جائے۔ یوں نیک نامی کے پردے میں بدعملی کی چادر لپیٹ کر یہ کردار بڑے وقار سے خود کو“نظام کا نجات دہندہ”قرار دیتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ سادہ خادم رفتہ رفتہ طاقتور بن گیا۔ اب اس کے گرد چاپلوسوں کا ہجوم ہے۔ جو کل تک اس کے ساتھ سیاسی پوسٹر لگاتے تھے، آج اس کے دفتر میں حاضر باش ہیں۔ افسران اب خاموش رہنے لگے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بدعنوانی کی شکایت دینے والا خود اس نظام کا طاقتور حصہ ہے۔ یو عوام، جو تبدیلی کے انتظار میں تھی، اب مایوسی کے اندھیرے میں سانس لے رہی ہے۔یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ کرپشن ہمیشہ نوٹوں کی شکل میں نہیں ہوتی۔ کبھی یہ نیت کی بدعنوانی، کبھی الفاظ کی منافقت، اور کبھی خدمت کے نام پر خود غرضی کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی سادگی کو ہتھیار بنا لے، جب ایمان کی بات محض تاثر دینے کے لیے استعمال ہو، اور جب دیانت کا نعرہ ذاتی مفاد کے لیے لگایا جائے تو پھر قوم کا ضمیر قہقہوں میں
نہیں، خاموشیوں میں مرنے لگتا ہے۔آج ہر ادارے میں، ہر سیاسی صف میں، ایسے کردار چھپے ہیں جو خود کو“اصلاح کا علمبردار”ظاہر کرتے ہیں، مگر حقیقت میں وہی نظام کی جڑوں میں بیٹھے زہریلے کیڑے ہیں۔ اگر کبھی سچ بولنے والا شخص ان کے خلاف اٹھے، تو یہ سب مل کر شور مچاتے ہیں کہ“وہ تو دشمن کے ایجنٹ ہیں!”یوں بدعنوانی کو حب الوطنی کی چادر اوڑھا دی جاتی ہے۔قومیں اس وقت نہیں مرتیں جب ان کے دشمن طاقتور ہوں، بلکہ جب ان کے اندر کے کردار اپنے ایمان کو مفاد میں بیچ دیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صرف دوسروں کی نہیں، اپنے ضمیر کی بھی چھان بین کریں۔ ورنہ یہ کہانی یونہی دہراتی رہے گی — چور اُلٹا کوتوال کو ڈانٹے، اور عوام تالیاں بجاتی رہیگی