ڈاکٹر عشرت العباد ہی امید کی آخری کرن
تحریر: عامرعلی بانواز
جب قیادت ٹوٹ جائے، نظریہ بکھر جائے، اور عوام مایوس ہو جائیں — تب ضرورت ہوتی ہے ایک ایسے رہنما کی جو سب کو جوڑ سکے

پاکستان کے چاروں صوبوں بالخصوص سندھ کی اگر ہم بات کریں تو سب سے زیادہ بدحال صوبہ سندھ ہے اس کی اصل وجہ سندھ میں موجود باصلاحیت و ایماندار حکمران کی کمی ہے جب کے ایک وقت تھا کے صوبہ سندھ کے شہری علاقے تو ایک طرف سندھ کے دیہی علاقے بھی تعلیم روزگار صحت پانی بجلی گیس جیسی سہولیات سے آراستہ تھے اور یہ وہ ہی دور تھا جب جنرل پرویز مشرف صاحب صدر پاکستان تھے اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد تھے اس دور میں کئی وزیر اعلی سندھ آئے کئی ناظمین شہر بنے لیکن سندھ کی تعمیر و ترقی اور ایک عام آدمی کی خوشحالی کے ضامن ڈاکٹر عشرت العباد تھے۔اب سندھ کے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے شہری علاقے بھی بدحالی کا شکار ہے کیونکہ سندھ میں موجود سیاسی قیادت اقرباء پروری بددیانتی اور آپسی انتشار کا شکار ہے اگر ہم یہاں موجودہ سندھ حکومت کی بات کریں تو پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں مستقل بنیادوں پر حکومت کررہی ہیں مگر پیپلز پارٹی کی ہر سطح کی قیادت آج اقرباء پروری بددیانتی کے باعث سندھ کی تعمیر و ترقی اور ایک عام شہری کی ضروریات زندگی سے بے خبر اپنے سیاسی مفادات اور اپنے اپنے خاندان کی نشونما پرزیادہ توجہ دیتی رہی ہیں اور دے رہی ہے جس کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقے کی عوام آج بدحالی کا شکار ہے

جہاں نا صاف پانی نا بجلی نا گیس تعلیم روزگار اور صحت جیسی سہولیات سے محروم ہے اس ہی طرح اگر ہم سندھ کے شہری علاقوں بات کریں تو جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عشرت العباد کے دور میں جو سہولیات سندھ کے شہری علاقوں کو دستیاب تھی اب تمام سندھ کے شہری علاقے محروم ہے جنرل پرویز مشرف صاحب نے خصوصی فنڈ سندھ کی تعمیر و ترقی کے لئے اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو دیئے جسے ڈاکٹر عشرت العباد نے انتہائی قائدانہ صلاحیتوں سے سندھ کے شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی نگرانی میں ایم کیو ایم کی اعلی قیادت اور ایم کیو ایم کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو خصوصی فنڈ کا اجراء سے سندھ کے شہری علاقوں میں تعمیر و ترقی اور ایک عام آدمی کی خوشحالی کے اقدامات کرائیں
اس ہی طرح سندھ کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹر عشرت العباد نے دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون سے بھرپور ترقیاتی کام کرائیں مگر 2008 کے بعد سندھ میں تعمیر و ترقی کے سارے ترقیاتی منصوبے آہستہ آہستہ روک دیئے گئے اس کی سب سے بڑی وجہ 18 ترمیم تھی جس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کی بدحالی کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔اس ہی طرح اگر ہم سندھ کے شہری علاقوں کی بات کریں تو ایم کیو ایم مستقل بنیادوں پر سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت بن کر کام کررہی ہے مگر سندھ کی تعمیر و ترقی اور ایک عام آدمی کی ضروریات زندگی کا حصول آسان بنانے میں ناکام ہوتی آرہی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی سوچ اعتماد اور قیادت کا فقدان ہے
جس طرح ایم کیو ایم ماضی میں متحداور منظم تھی گزشتہ کئی سالوں سے آپسی انتشار اور تقسیم سے دوچار ہے ایم کیو ایم گزشتہ ایک دہائی سے تقسیم کا شکار ہے کبھی پی ایس پی کبھی ایم کیو ایم بہالی اور کبھی ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کی صورت میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جارہی ہیں ۔جب ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور ایم کیو ایم بہالی جس کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کر ہے تھے اور ان تینوں دھڑوں کے انضمام کا مقصد سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص مہاجر سیاست کو نئی یکجہتی فراہم کرنا تھا۔ برسوں کی تقسیم، باہمی مخالفت اور قیادت پر بداعتمادی کے بعد عوام کو امید تھی کہ یہ اتحاد سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص مہاجر سیاست کو دوبارہ منظم کرے گا۔مگر حقیقت اس کے برعکس ثابت ہوئی۔ انضمام کے کچھ عرصے بعد ہی ایم کیو ایم کے اندر اختلافات اور گروہ بندی نے ایک بار پھر جنم لے لیا۔
اس صورتحال نے نہ صرف جماعت کو کمزور کیا بلکہ سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست بالخصوص مہاجر سیاست کے پورے بیانیے کو نقصان پہنچایا۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے مابین گروہی تقسیم نے سندھ کے شہری ووٹر کو بے یقین کر دیا۔ جو طبقہ کبھی ایک نظریے پر متحد تھا، اب خود کو غیر نمائندہ محسوس کرتا ہے۔اس پیدا ہونے والے خلا کی ایک وجہ خود پی ایس پی کی اعلی قیادت کے ماضی میں دیئے گئے بیانات بھی ہے جس میں پی ایس پی کی اعلی قیادت نے مہاجر نام اور مہاجر سیاست کو دفن کرنے کی بات کی اس بیان کو ایم کیو ایم کے سینئر کارکنان جس میں اکثریت ایسے کارکنان تھے جن کی ایم کیو ایم کے لئے بڑی قربانیاں تھی اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں ایم کیو ایم کی پہچان تھے وہ تمام کارکنان نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے انضمام کو قبول نہیں کیا اور وہ غیر سیاسی ہوکر اپنے گھر اور کام کی حد تک محدود ہوگئے اس کا اثر ان کے علاقائی لوگوں پر پڑا جس کی بناء پر وہ لوگ جس میں مہاجر سندھی اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے جو ہر حالات میں ایم کیو ایم کو ووٹ کیا کرتے تھے
اس انضمام کی وجہ سے ہونے والے جنرل الیکشن میں سندھ کی شہری عوام نے انضمام کے بعد ایم کیو ایم کو مسترد کردیا۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا انضمام اپنے اختتام کے آخر ی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان اس انتشار کی پیش نظر سندھ کے شہری عوام بالخصوص مہاجر قوم بہت زیادہ مایوس ہو گئی ہے اور اس مایوسی کے باعث مہاجر قیادت اور سندھ کے شہری عوام کے درمیان خلا بہت بڑھ گیا ہے۔ اسی خلا میں آج ایک ایسی شخصیت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو ذاتی مفادات اور سیاسی انتقام سے بالاتر ہو کر سندھ میں بسنے والی تمام اقوام کو دوبارہ جوڑ سکے — اور یہ کردار صرف ڈاکٹر عشرت العباد خان ہی ادا کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عشرت العباد کا ماضی ان کے توازن، تدبر اور مفاہمت پسندی کا گواہ ہے۔ گورنر سندھ کے طور پر وہ نہ صرف کراچی کے امن و ترقی کے ضامن رہے بلکہ انہوں نے تمام سیاسی قوتوں، حتیٰ کہ مخالف جماعتوں کے ساتھ بھی پل کا کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت تصادم کے بجائے مصالحت، نفرت کے بجائے مکالمہ، اور تقسیم کے بجائے اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سندھ کی عوام بالخصوص سندھ کی شہری عوام جو اپنے شہر کی تعمیر و ترقی اور ضروریات زندگی اور ایک اچھے مستقبل کو یاد کرتے ہے اور ماضی میں ملنے والی سہولیات چاہے وہ روزگار کی ہو پانی بجلی گیس کی وافر مقدار میں حصول ہو یا امن و امان کی صورتحال ہو ان کے زہنوں میں صرف ایک نام ہی گونجتا ہے وہ نام صرف ڈاکٹرعشرت العباد کا ہی ہے اور ایسے تمام افراد خواں وہ کسی بھی زبان کے بولنے والے ہو کسی بھی علاقے کے رہائشی ہو سندھ کو مضبوط منظم اور خوشحال دیکھنا چاہے ہیں جو ایم کیو ایم کو ایک بار پھر مضبوط اور متحد دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کے سندھ کی قیادت سندھ کے شہری علاقوں کی واحدنمائندہ جماعت ایم کیو ایم کی قیادت ڈاکٹر عشرت العباد کو دے دینی چاہیے
اور یقینا سندھ میں سیاسی فقدان سندھ کے شہری علاقوں کی جماعت ایم کیو ایم اندرونی اختلافات، گروہی سیاست اور قیادت کی کشمکش کا شکار ہے، تب ایسی صورت میں ڈاکٹر عشرت العباد ہی وہ واحد رہنما ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں کی خوشحالی اورسندھ کے شہری علاقوں کے سیاسی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکتے ہیں۔ ان کے پاس تجربہ، غیر جانبداری اور وہ ساکھ موجود ہے جسے پاکستان بالخصوص سندھ کی عوام آج بھی احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
سندھ میں بسنے والی تمام اقوام اور سندھ کی تعمیر کے خواں کو اب ایک غیر متنازع، فکری اور عملی قیادت کی ضرورت ہے، جو سیاست کو دوبارہ خدمت، شناخت اور استحکام کے راستے پر ڈال سکے۔سندھ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی موجودہ قیادتیں واقعی قوم کے مستقبل کی فکر رکھتی ہیں تو انہیں اپنے اختلافات بھلا کر ڈاکٹر عشرت العباد کی قیادت میں ایک متحد فورم تشکیل دینا ہوگا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کے سندھ کی سیاست بالخصوص مہاجر سیاست کے زخم گہرے ضرور ہیں، مگر ناقابلِ علاج ہے۔ اگر مفاہمت، بردباری اور عملی قیادت کا راستہ اپنایا جائے تو سندھ کی تعمیر و ترقی اور وہی ایم کیو ایم جو کبھی عوام کی آواز تھی، دوبارہ اپنی شناخت حاصل کر سکتی ہے۔ اور یہ سفر صرف ایک قیادت سے ممکن ہے — ڈاکٹر عشرت العباد خان۔