شراکت داری کےسائےمیں تعلیمی پالیسی ؟

شراکت داری کے سائے میں تعلیمی پالیسی کامیاب یا ناکام
تحریر: عقیل اختر

نیو کراچی ٹاؤن کے سرکاری بلدیاتی اسکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت نجی انتظام میں دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس فیصلے نے تعلیمی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اس اقدام سے تعلیم کا معیار بہتر ہو سکے گا یا یہ محض ایک اور انتظامی تجربہ ثابت ہوگا۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چیئرمین نیو کراچی ٹاؤن محمد یوسف کی دلچسپی، ان کی عملی کوششیں اور تعلیم کے شعبے میں ان کا اصلاحی جذبہ اس منصوبے کو ایک امید کی کرن بنا رہا ہے۔نیو کراچی ٹاؤن کے بیشتر سرکاری اسکول کئی دہائیوں سے زبوں حالی کا شکار رہے ہیں۔ عمارتیں ٹوٹی پھوٹی، فرنیچر ناکافی، بیت الخلائ ناقابلِ استعمال اور اساتذہ کی حاضری غیر تسلی بخش رہی۔ والدین کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا تھا اور بچے پرائیویٹ اسکولوں کا رخ کر رہے تھے۔

ایسے میں چیئرمین محمد یوسف نے نہ صرف ان مسائل کو سنجیدگی سے لیا بلکہ اسکولوں کی مرمت، تزئین و آرائش اور تعمیرِ نو کے متعدد منصوبے بھی شروع کیے۔ کئی اسکولوں میں نئی چھتیں ڈالی گئیں، دیواروں کی پینٹنگ کی گئی، بجلی اور پانی کی فراہمی بہتر بنائی گئی، اور ٹوٹی کرسیاں و میزیں تبدیل کر کے طلبہ کے لیے نیا فرنیچر فراہم کیا گیا۔محمد یوسف کا یہ ماننا ہے کہ جب تک اسکولوں کا ماحول صاف، محفوظ اور خوشگوار نہیں ہوگا، بچوں میں سیکھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے نہ صرف اسکولوں کی عمارتوں کو بہتر بنانے پر توجہ دی بلکہ اساتذہ کے مسائل سننے اور ان کے حل کے لیے بھی عملی اقدامات کیے۔ ان کی ہدایت پر بلدیہ کے متعلقہ افسران کو پابند کیا گیا کہ اساتذہ کو سہولتیں فراہم کی جائیں، حاضری کے نظام کو شفاف بنایا جائے، اور تدریسی عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے غیر ضروری مراحل ختم کیے جائیں۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ نیو کراچی ٹاؤن انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے

کہ اب کچھ منتخب اسکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈل کے تحت چلایا جائے گا۔ اس فیصلے کا مقصد تعلیم کے معیار کو بلند کرنا، نظم و نسق کو بہتر بنانا اور بچوں کو جدید تدریسی ماحول فراہم کرنا ہے۔ اگر اس ماڈل کو دیانت داری اور شفافیت سے لاگو کیا گیا تو یہ اسکول ایک نئی تعلیمی تحریک کا آغاز ثابت ہو سکتے ہیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل کے ممکنہ فوائد واضح ہیں۔ نجی ادارے عام طور پر بہتر نگرانی، جدید تعلیمی نظام، اور اساتذہ کی کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری اسکولوں میں نظم و ضبط پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، نجی شراکت دار اساتذہ کی تربیت کے لیے ورکشاپس منعقد کر سکتے ہیں، ٹیکنالوجی بیسڈ تدریس متعارف کرا سکتے ہیں، اور جدید نصاب کے ذریعے طلبہ کو عالمی سطح کی تعلیم سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نتیجے میں اسکولوں کی فضا زیادہ منظم اور پرکشش ہوگی،

جہاں طلبہ کو صرف نصاب نہیں بلکہ اخلاقی تربیت، کردار سازی اور تخلیقی سوچ کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ اگر نجی شراکت دار اس منصوبے کو محض کاروبار کے بجائے خدمتِ خلق کے جذبے سے اپنائیں تو نیو کراچی کے تعلیمی ادارے واقعی معیار کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔تاہم، یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اس ماڈل کے ساتھ کچھ خدشات بھی وابستہ ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر نجی فریق منافع کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے غریب طلبہ پر مالی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ نیو کراچی جیسے متوسط طبقے کے علاقے میں اگر اسکولوں کی فیسوں یا داخلہ پالیسیوں میں تبدیلی کی گئی تو ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سرکاری اساتذہ کے دلوں میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ نجی انتظام کے آنے سے ان کے روزگار پر اثر پڑے گا، یا انہیں نئے نظام میں غیر ضروری دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان تمام خدشات کے باوجود چیئرمین محمد یوسف کا مؤقف واضح ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔

ان کے نزدیک سرکاری اسکولوں کو نجی اداروں کے تعاون سے جدید بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ تعلیم مفت رہے گی، اساتذہ کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، اور معیاری تدریس کو یقینی بنانے کے لیے ہر سطح پر نگرانی کا نظام مضبوط کیا جائے گا۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چیئرمین یوسف نے اپنی مدتِ قیادت میں اسکولوں کے علاوہ کھیل کے میدانوں اور لائبریریوں کی بحالی پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کا یہ وژن ہے کہ تعلیم صرف نصاب تک محدود نہیں بلکہ بچے کے کردار، سوچ، اور عملی زندگی کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ اگر اس سوچ کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو عملی شکل دی گئی تو یقیناً نیو کراچی ٹاؤن میں تعلیمی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔اب یہ ذمہ داری صرف حکومت یا چیئرمین تک محدود نہیں رہتی،

بلکہ والدین، اساتذہ، اور مقامی سماجی تنظیموں کو بھی اس مشن کا حصہ بننا ہوگا۔ تعلیم کی کامیابی اس وقت ممکن ہے جب ہر طبقہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور نظام کو شفاف رکھنے میں کردار ادا کرے۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہے۔ نیو کراچی ٹاؤن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا یہ تجربہ اگر کامیاب ہوا تو یہ پورے کراچی اور شاید ملک کے لیے ایک مثال بن جائے گا۔ مگر اگر اسے محض ایک رسمی منصوبہ سمجھ کر نافذ کیا گیا تو یہ ایک اور کاغذی منصوبہ بن کر رہ جائے گا۔ وقت بتائے گا کہ یہ تجربہ کس سمت جاتا ہے، لیکن فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چیئرمین محمد یوسف کی دلچسپی، نیک نیتی اور عملی کوششوں نے نیو کراچی کی تعلیمی فضا میں امید کی ایک نئی شمع روشن کر دی ہے — اور یہی امید کسی بھی بڑے انقلاب کی پہلی شرط ہوتی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں