سہولت سے مہنگائی کا سفر
تحریر:عقیل اختر
کراچی ہمیشہ سے ٹرانسپورٹ کے شدید بحران کا شکار رہا ہے۔ اس شہر کی گلیاں اور سڑکیں روزانہ لاکھوں افراد کے قدموں اور گاڑیوں کے شور سے آباد رہتی ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام ہمیشہ ناکافی اور غیر تسلی بخش رہا ہے۔ برسوں سے پرائیویٹ منی بسیں، کوچیں اور رکشے ہی شہریوں کا سہارا رہی ہیں جو مسافروں سے من پسند کرایے وصول کرتے اور عوام کا استحصال کرتے رہے ہیں۔
خاص طور پر غریب اور متوسط طبقہ اس بدحالی سے بری طرح متاثر ہوا۔ایسے میں سندھ حکومت نے شہر کے عوام کو ریلیف دینے کے لیے ریڈ،اورینج لائن بسوں کا آغاز کیا۔ یہ اقدام کراچی کے باسیوں کے لیے کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہ تھا۔ ریڈ لائن بس نے نیو کراچی سے کورنگی کراسنگ تک سفر کرنے والے ہزاروں افراد کو معیاری اور آرام دہ سفری سہولت فراہم کی۔ کرایہ صرف پچاس روپے مقرر کیا گیا جو عوام کی پہنچ میں تھا۔
یہ فیصلہ عام شہریوں کے لیے باعث مسرت تھا اور طویل عرصے بعد یہ محسوس ہوا کہ حکومت نے واقعی عوامی مشکلات کو مدنظر رکھا ہے۔ریڈ لائن بس کے آغاز پر نیو کراچی کے عوام کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مرد، خواتین، بچے اور بزرگ روزانہ اس بس کے ذریعے کورنگی اور دیگر مقامات پر سفر کرنے لگے۔ یہ پہلی بار تھا کہ لوگ آرام دہ نشستوں، ایئر کنڈیشنڈ ماحول اور مناسب کرائے کے ساتھ سفر کرنے لگے۔ اس سہولت نے عوام کے اعتماد کو بڑھایا اور یہ احساس دلایا کہ اگر حکومت چاہے تو شہریوں کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔بسوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر ان میں بیٹھنے کی گنجائش کم پڑ جاتی تھی اور خالی نظر آنا تقریباً ناممکن ہوتا۔ یہ کامیابی سندھ حکومت کے لیے باعثِ فخر تھی اور حکومتی وزراء نے مختلف مواقع پر اس منصوبے کو اپنی کارکردگی کی علامت قرار دیا۔
مگر یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ سندھ حکومت نے اچانک ریڈ لائن بس کو ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی کرایہ پچاس روپے سے بڑھا کر ایک سو بیس روپے کر دیا گیا۔ اب نیو کراچی سے کورنگی کراسنگ تک ایک طرفہ سفر کا کرایہ 120 روپے ہے۔ یعنی جو مسافر روزانہ آتا اور جاتا ہے، اس کے لیے دو طرفہ کرایہ 240 روپے روزانہ بنتا ہے۔ یہ خرچ عام آدمی کی جیب پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ مہینے بھر میں یہ اخراجات کئی ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں اور یوں وہ سہولت جو کبھی عوامی خوشی کا باعث تھی اب ان کے لیے بوجھ بن گئی ہے۔نیو کراچی کے عوام اور پورے شہر کے مسافروں نے اس فیصلے کو سخت مایوسی کے ساتھ دیکھا ہے۔ وہ لوگ جو خوشی خوشی پچاس روپے میں آرام دہ سفر کر رہے تھے اب دوبارہ مشکلات میں گھر گئے ہیں۔
کچھ مجبوراً پرائیویٹ منی بسوں اور کوچوں پر واپس لوٹ گئے ہیں، کچھ کڑوا گھونٹ پی کر زیادہ کرایہ ادا کر رہے ہیں۔ عوام کے نزدیک یہ دراصل ایک دھوکے کے مترادف ہے کہ پہلے سہولت فراہم کر کے اعتماد جیتا گیا اور پھر اچانک اسے مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا گیا۔یہ صورتحال سندھ حکومت کی ترجیحات پر سوال اٹھاتی ہے۔ کیا حکومت واقعی عوامی مفاد کو مقدم رکھتی ہے یا اس کی پالیسی صرف ٹھیکے داروں اور مخصوص سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تشکیل دی جاتی ہے؟ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے ایک کامیاب منصوبے کو نجی ہاتھوں میں دے دینا دراصل عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ اگر حکومت کے پاس پہلے سے ایک کامیاب اور منافع بخش منصوبہ تھا تو اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ فیصلہ واقعی عوامی مفاد میں تھا یا پھر کسی مالی یا سیاسی مصلحت کے تحت کیا گیا؟کراچی جیسے بڑے شہر کو ایک مربوط اور سستا پبلک ٹرانسپورٹ نظام چاہیے۔ ریڈ، اورینج لائن بسیں اس سمت میں ایک مثبت قدم تھیں لیکن اگر ان کا کرایہ عام شہری کی استطاعت سے باہر ہو جائے تو پھر یہ منصوبے اپنی اصل افادیت کھو دیتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کرایے پر نظرِ ثانی کرے، عوامی رائے کو مدنظر رکھے اور ایسے فیصلے کرے جو غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کریں۔یہ وقت ہے کہ سندھ حکومت اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لے۔ کراچی کے عوام اب مزید وعدہ خلافی اور سہولتوں کی قربانی برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ ایک مزدور جب صبح اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے نکلتا ہے تو سب سے پہلے اس کے سامنے سفر کا خرچ آتا ہے۔ اگر یہی خرچ بڑھا دیا جائے تو باقی زندگی کے معاملات خود بخود مشکل ہو جاتے ہیں۔ریڈ لائن بس کا آغاز کراچی کے عوام کے لیے امید کی کرن تھا
مگر کرائے میں بے تحاشہ اضافہ اس امید پر کاری ضرب ہے۔ سندھ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کے بنیادی مسائل کا حل ہی اصل کارکردگی ہے۔ عوامی سہولت کو نجی مفاد کی نذر کرنا کسی بھی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ اگر یہ روش جاری رہی تو عوام کا اعتماد نہ صرف ان منصوبوں پر بلکہ حکومت پر بھی ختم ہو جائے گا۔یہ وقت عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے نہ کہ انہیں مزید مشکلات میں دھکیلنے کا۔ ریڈ لائن بس کا اصل مقصد عوام کو سہولت دینا تھا، اسے مہنگائی اور ٹھیکے داری کے شکنجے سے نکال کر دوبارہ عوام کے لیے آسان بنایا جانا چاہیے۔ یہی کراچی کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے اور یہی کسی انصاف پسند حکومت کا اصل امتحان ہے