ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
( وِذ خذنا مِیثاق بنِی ِسرائِیل لاتعبدون ِلا اللہ وبِالوالِدینِ ِحسانا )
ترجمہ: اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا

دین اسلام نے جہاں ہمیں بہت سی بنیادی چیزوں کے متعلق سکھایا ہے وہیں اسلام میں حقوق والدین کے لئے بھی قرآن مجید و فرقان حمید نے واضح الفاظ میں ماں باپ کے لئے ہدایات جاری کیں ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی نے ماں باپ کے ساتھ حسن و سلوک (بھلائی) سے پیش آنے پر زور دیا ہے ۔ اور ادب و احترام کو واجب قرار دیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”اگر تیری زندگی میں والدین میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف بھی کہہ اور کوئی چھڑکی کی بات نہ کر ، ان سے بات کرتے وقت نرمی اختیار کر۔ ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ( اور دنیا میں ان دونوں کا اچھا ساتھ دو ) ، میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو اور تجھے میری طرف لوٹ کر آنا ہے دور ِجدید میں نہ جانے کیوں ہمارے بچوں کے احساسات بھی جدید ہوچکے ہیں ۔ مدر ڈے فادر ڈے،تو بڑے شوق سے مناتے ہیں واٹس اپ ،پر بڑے بڑے میسجز اور وڈیوزتو اپ لوڈ ہوجاتی ہیں لیکن جب عملی محبت کی تصویر ایدھی،اور اولڈ ہاوسز میں دیکھتا ہوں تو احساسات کو اپنے غم کے حصار میں کھڑا دیکھتا ہوں ۔ تکالیف اٹھا کر ماں اپنے بچے کو پالتی ہے اور پھر وہی ماں باپ غیروں کے ہاتھوں پلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گھروں میں بھی ان کے ساتھ اس سے ملتا جلتا سلوک نظر آتا ہے ۔گھروں میں والدین پر چیختے چلاتے بچوں کو یہ کہتے ہوئے سنتاہوں کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا کیا تو اوپر آسمان بھی ہل جاتا ہوگا

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اگر کوئی شخص ماں باپ کو رات بھر ناراض رکھے یہاں تک کہ صبح ہوجائے تو اس کے لئے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ اور جو صبح سے شام تک ماں باپ کو ناراض رکھے اس کے لئے بھی دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو ناراض کرے تو اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے خواہ اس ناراضگی میں زیادتی ماں باپ ہی کی طرف سے کیوں نہ ہوبچے باہر ممالک میں چلے جاتے ہیں اور ماں باپ کو وہاں سے چیزیں بھیجتے رہتے ہیں اور جب ہمت ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتے ہیں محبت لٹاتی ماں کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ تو منتظر ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا جس کو اس نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا وہ واپس آجائے وہ اس کے لئے سب سے قیمتی ہوتا ہے اس امید پر وہ اس نومولود کو رضائے الہی وعنایت کے طفیل پالتی ہے جو اس کو رحمت او رنعمت ملنے والی ہوتی ہے اگر رحمت آئی تو سرکار دوعالم ۖ کا سلام آئیگا اور ماں اس کی پرورش دین الہی کے احکامات کے تحت کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ جب اس بچی کے نصیب جاگے اور وہ رخصت ہوکر اپنے دوسرے گھر جائے گی تو یہ تربیت اور پرورش اس کے لیے گوشئہ عافیت بن کر اس کو سرخرو کریں گے اور اگر نعمت (بیٹا) ہو ا تو اس کی پرورش اس انداز میں کی جائے تو معاشرے میں اس کی عزت اور وقار کی باتیں اسکے سامنے آتی رہیں۔

ماں باپ کی محبتیں اولاد کے لیے کسی گوہرِ نایاب سے کم نہیں ہوتی ہیں اگر اولاد کو اس کا احساس ہو لیکن اس میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا کردار ہونا چاہئیے والدین اپنے بچوں کو ایسا ماحول فراہم کریں کہ وہ والدین کے لیے وقتی سہارے سے آگے بڑھ کر مستقل مضبوط سہارے کے روپ میں سامنے آئیں ،والدین کے بارے میں تو اللہ تبارک تعالی فرماتا ہے کہ (اگر ماں باپ) راضی تو میں راضی ہوں۔ اولاد کو ماں باپ کی تکالیف کا اندازہ اس وقت ہوتاہے جب وہ خود ماں باپ بن جاتے ہیں اس کے بعد قانون قدرت کی جانب سے مکافات عمل شروع ہوجاتا ہے ۔جن اولادوں نے اپنے ماں باپ کو ہر ممکن سکون دینے کی کوشش کی ہوتی ہے وہ اپنا خوشحالی کا سفر خود اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں لیکن جو اولادیں اپنے والدین کے لئے کسی بھی طرح تکالیف کا باعث بنتی ہیں وہ اس مکافات عمل کے تحت دین ودنیا میں اپنے لیے بے پناہ مصائب وتکالیف کو اپنا مقدر بنا لیتی ہیں اور پھر وہی اولاد مختلف پیر وفقیروں،عاملوں کے پاس رونا لے کر چلی جاتی ہے اور کثیر پیسے دیکر اپنے مسائل حل کرنے کے لیئے کہتی ہیں جبکہ بے وقوف اولاد یہ نہیں جانتی ہے کہ اس کے ماں باپ ہی وقت کے ولی گھر میں موجود ہیں ،ان ناخلف اولادوں کو اگر کوئی درست پیر عامل مل جائے تو وہ یہی کہے گا کہ پہلے اپنے ماں باپ کو راضی کر پھر میرے پاس آ کیوں جب اللہ کہہ رہا ہے کہ جس کے ماں باپ راضی ہوں گے میں ان سے راضی ہوں گا۔ماں باپ وقت کے ولی ہوتے ہیں ان سے دعائیں لیں سارے کام بھی ہوجائیں گے اور پیر ِکامل بھی مل جائے گا
،تاریخ وکائنات گواہ ہیں کہ باعث وجود کائنات سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی ۖ کے پاس بیش بہا گوہر نایاب اصحابہ رضوان اللہ اجمعین وجانثاران کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن ایک ایسے بھی تھے جو موجود نہ تھے پھر بھی (عاشق رسولۖ) کہلائے تاریخ ِاسلام ان کو حضرت اویس قرنی
کے نام سے جانتی ہے عاشق رسولۖ کا خطاب حاصل کرنے والے حضرت اویس قرنی کو یہ شرف محسن انسانیت نبی کریم حضرت محمد مصطفی ۖ کی روحانی محبت کے طفیل حاصل ہوا۔اس کے ساتھ ان کی اپنی ماں کی محبت وخدمت کو بھی مضمون میں شامل کرنا ضروری ہے۔ حضرت اویس قرنی نے اپنی والدہ حضور کی ایسی خدمت کی کہ دربار محمد ۖ سے عاشق رسولۖ کا درجہ پالیا کیونکہ اگر اویس قرنی اپنی ماں کی خدمت نہ کرتے تو ان سے کوئی بھی راضی نہ ہوتا،حضرت اویس قرنی کی ما ں سے محبت کی کیا بات کی جائے۔ آپ جب اپنی دانتوں سے محروم ضعیف العمر والدہ کو کھانا کھلاتے تھے تو اویس قرنی نوالہ نرم کرنے کی لیے پہلے اس کو چبا تے پھر والدہ کو کھلاتے تاکہ ان کو کھانے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔خدمت ومحبت کا یہ عالم ہوگا تو کیا (قرنی ) سرکار دوعالم ۖکا پیارا نہ ہوگا (سبحان اللہ)حضرت اویس قرنی کا اپنے پیارے آقا ۖ سے پہلی محبت اور اپنی والدہ سے دوسری محبت کے خوبصورت وحسین امتزاج کی روشنی ہمارے لیے باعث تقلید ہے ۔
ماں باپ کی تکالیف کا جو انہوں نے پیدائش کے وقت اٹھائے اس کا مدوا تاقیامت کسی قرض کی طرح ہماری زندگی کے اختتام تک رہے گا۔ خاص طور سے ماں کا درجہ بہت بلند ہے ، ماں باپ کے عالمی دن ضرور منائیے لیکن اس طرح منائیے کہ آپکا ضمیر آپ کو پریشان نہیں کرے ۔اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے والدین کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنالیجیے ۔اللہ تبارک تعالی آپکی زندگی کو سکون کی دولت سے بھر دے گا اورماں باپ بھی اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھیں کیونکہ اگر ببول کا پودا لگائیں گے تو اس میں رس دار پھل نہیں لگے گا۔ طریقت وشریعت دونوں میں ماں باپ کی محبت وخدمت پر زور دیا گیا ہے ۔دیناوی اور خانقاہی نظام دونوں میں ماں باپ کو اگر نظر انداز کردیا جائے تو پھر یہ نظام آپکے لیے خود بخود ثانوی ہوجائیں گے اورآپ اپنے پیر کے ساتھ جسمانی طور پر تو ہوں گے لیکن روحانی فیوض برکات سے آپ ہمیشہ محروم رہیں گے۔دین وآخرت کی ظاہری وروحانی اور دنیاوی تمام نعمتیں حاصل کرنے کے لیے والدین کی خدمت کو اپنی زندگی پہلا مقصد بنانا ہوگا ،اللہ تبارک تعالی ہم سب کو اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے کی اور جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی اولادں کو قران پڑھ کر بخشنے اور ان کے نام سے صدقہ جاریہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یا رب العالمین)